Duration 8:37

Iqbal bano sings Hasrat Mohani - sheva ishq nahi husn ko ruswa karna

25 065 watched
0
115
Published 4 Nov 2009

دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا (حسرت موہانی) اقبال بانو نے روہتک میں زھرہ بائی نام کی ایک گلوکارہ کے گھر میں جنم لیا۔ سُر سنگیت اُن کی گھُٹی میں پڑا تھا اور روہتک کا مخصوص انداز اُن کی تربیت میں در آیا تھا۔ البتہ سنِ بلوغت کو پہنچنے پر جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی مرکز سے گانا شروع کیا تو اُردو کے معیاری تلفظ اور ادائیگی کے دہلوی انداز سے اُن کی شناسائی ہوئی۔ انیس سو باون میں ایک پاکستانی زمیندار سے شادی کرنے کے بعد جب وہ ملتان آکر آباد ہوئیں تو کافی کی صِنف سے بھی اُن کا تعارف ہوا اور آج اُن کی گائی ہوئی ملتانی کافیاں سارے پاک و ہند میں معروف حیثیت رکھتی ہیں۔ جب وہ پاکستان منتقل ہوئیں تو یہاں کی فلم انڈسٹری ابھی گھٹنیوں چل رہی تھی۔ بمبئی اور کلکتے سے نقلِ وطن کرکے آنے والے فلم ساز اور ہدایتکار اِکّا دُکّا فلمیں بنا رہے تھے لیکن فلمی صنعت کے اوّلین دیسی ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ وہ خالص لاہوری شخصیت تھے اور بمبئی یا کلکتے کی ہوا انھیں نہیں لگی تھی۔ انھوں نے قاتل اور گمنام جیسی فلمیں بنا کر نہ صرف صبیحہ اور اسلم پرویز جیسے آرٹسٹوں کو پاکستانی سکرین سے روشناس کرایا بلکہ اقبال بانو کو بھی ایک پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کرایا۔ بہت سے معروف فلمی گیت گانے کے بعد بھی اقبال بانو کا دِل کلاسیکی روایت میں اٹکا رہا۔ ہدایتکار خلیل قیصر کی فلم ناگن میں اگرچہ موسیقار صفدر نے اُن کےلئے خاص طور پر نیم کلاسیکی دھنیں تیار کیں اور اُن کا گایا ہوا یہ گیت تو زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔ اب کے ساون تو سجن گھر آجا۔ قبال بانو نے جلد ہی پلے بیک گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے فن کو محض نیم کلاسیکی محفلوں تک محدود کر لیا لیکن اقبال بانو نے جلد ہی پلے بیک گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے فن کو محض نیم کلاسیکی محفلوں تک محدود کر لیا۔ سنہ ستر کی دہائی میں انھوں نے ٹیلی ویژن پر غزل گائیکی کا مظاہرہ کر کے ہر طرح کے سامعین اور ناطرین سے داد وصول کی۔ معروف شاعر قتیل شفائی نے اُن کی شان میں کتابی طوالت کی ایک مسلسل نظم لکھ ڈالی جو مُطربہ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ خود اقبال بانو نے میر، غالب، فیض اور فراز کی کئی غزلیں گائیں۔ غزل اپنی ساخت میں ایک انتہائی مُرتّب و مدّون قسم کی صنف ہے اور اس لحاظ سے گلوکار کو کئی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے کہ وہ استھائی اور انترے کے لگے بندھے اصولوں پر پوری غزل کامیابی سے نِمٹا دیتا ہے۔ لیکن نظم میں مصرعوں کی لمبائی غزل کی طرح متعین نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں ردیف قافیے کا طے شدہ آہنگ موجود ہوتا ہے، چنانچہ نظم کی گلوکاری ایک انتہائی مشکل فن بن جاتا ہے اور اقبال بانو نے اس مشکل کو نہ صرف ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا بلکہ اس آزمائش پر پورا اُتر کر بھی دکھایا۔

Category

Show more

Comments - 11